مصنف: رینڈی ایلکورن ( Author: Randy Alcorn )
مترجم: گوہر الماس ( Translator: Gohar Almas )
جنت کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی آئیگی؟ جنت کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی آئیگی؟ آپ کو کیوں لگتا ہے بہت سے مسیحی اب جنت کے منتظر نہیں ہیں؟ جنت کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمیاں کیا ہیں؟
موت کا سامنا کرنے والے مسیحی اکثر محسوس کرتے ہیں کہ وہ زندگی ختم ہونے سے پہلے ہی اسے چھوڑ رہے ہیں، اور وہ جلدی گھر جا رہے ہیں۔ وہ مایوس ہو جاتے ہیں کہ جاتے وقت وہ سب چیزوں اورلوگوں کو یاد کرینگے۔
لیکن خدا کے فرزندوں کو ابدی زندگی کا انتظار ہے — اس باپ کے بارے میں سوچیں کہ جو بیٹے کے گھر واپس آنے پر خوشی منا رہا ہے اور فسح کے ساتھ جشن منا رہا ہے (لوقا 15 باب)۔ ہمارے حقیقی گھر میں جشن پہلے سے ہی جاری ہے، جہاں ہم ابھی تک نہیں پہنچے اور یہ بالکل وہی جگہ ہے جہاں ہم موت کے بعد جائینگے۔ جیسا کہ دوسرے جو ہم سے پہلے رحلت کر چکے ہیں وہ ہمیں جنت کے جشن میں خوش آمدید کہیں گے، اسی طرح ہم بھی ایک دن ان کو خوش آمدید کہیں گے جو ہمارے بعد جنت میں آئینگے۔
خُدا اپنے کلام میں ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے ذہن کو آسمان کی طرف رکھیں جہاں مسیح ہے (کلسیوں باب 3، آیت 1)۔ ہم ایک حقیقی جگہ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جہاں ابدیت کے لیے مجسم، جی اٹھنے والا مسیح رہتا ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ "نئے آسمانوں اور نئی زمین کا انتظار کریں جہاں صرف راستبازی ہی ہے" (2 پطرس باب 3 ، آیت 13) - نئ کائنات، ہمارا مستقبل اور ابدی گھر۔
پولس کہتا ہے "کیونکہ میری دانِست میں اِس زمانہ کے دُکھ دَرد اِس لائِق نہیں کہ اُس جلال کے مُقابِل ہو سکیں جو ہم پر ظاہِر ہونے والا ہے۔" رومیوں باب 8 ، آیت 18
اگر ہم جنت کے مستقبل کے جلال کو نہیں سمجھ پاتے جو ہمارا انتظار کر رہا ہے، تو ہم اس کی عظمت کے مقابلے میں اپنی موجودہ پریشانیوں کو کم ہوتے نہیں دیکھ پائینگے۔
خُدا نے ہمیں جس مقصد کے لیے بنایا ہے وہ بالکل وہی ہے جو یسوع مسیح کی پیروی کرنے والوں سے وہ وعدہ کرتا ہے: یعنی جی اُٹھے ہوۓ مسیح کے ساتھ ایک جلالی زمین پر ایک جلالی بدن، ایک جلالی زندگی۔ ہماری خواہشات خدا کے منصوبوں کے عین مطابق ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کچھ انوکھا چاہتے ہیں جس کے باعث ہم خواہشات سے بھری سوچوں میں مصروف رہتے ہیں. اس کے برعکس ہم حقیقی انسانی زندگیوں کو حقیقی جسموں کے ساتھ چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے ہمیں اس طرح سے بنایا ہے، اور ہمیشہ اس کے لیے منصوبہ بندی کی ہے۔
کیا جنت کسی کے لیے اکتاہٹ کی جگہ ہوگی؟
اگر ہم جنت میں زندگی کو جسموں کے بغیر سوچیں تو زیادہ امکان ہے کہ ہم جنت کو اکتاہٹ والی جگہ کے طور پر سمجھیں۔ لیکن وہ جنت جہاں ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے اس کی تعریف جی اٹھنے کے حوالے سے کی گئی ہے، یعنی جنت میں جی اٹھے ہوۓ اجسمام ہونگیں۔ یسوع نے آنے والے ’’ہر چیز کے نۓ ہونے‘‘کی بات کی۔ (متی باب 19 ، آیات 27 تا 28 ) پطرس نے ’’اُن تمام چیزوں کے نۓ ہونے کے وقت کی منادی کی جن کے بارے میں خُدا نے اپنے مقدس نبیوں کے منہ سے نکلوایا‘‘ (اعمال باب 3 ، آیت 21 ) نئ کائنات میں جی اٹھے ہوۓ لوگوں کے لیے اکتاہٹ کا تصور ممکن نہیں۔
ہمارا یہ عقیدہ کہ جنت اکتا دینے والی جگہ ہو گی یہ ایک بدعت کو دھوکہ دیتا ہے کہ ہم کہیں خدا سے ہی اکتا نہ جائیں۔ اس سے بڑی کوئی بکواس نہیں ہے۔ خوشی پانے کی ہماری خواہش اور خوشی کا تجربہ براہ راست خدا کے طرف سے آتا ہے۔ اس نے ہمارے منہ میں ذائقہ پیدا کیا، ایڈرینالین، اور اعصابی سرے بنائے جو ہمارے دماغ کو خوشی پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح، ہمارے تخیلات اور خوشی کی صلاحیت اس خدا کی طرف سے بنائی گئی تھی جس کے بارے میں کچھ لوگ ٹھیک تصور نہیں کرتے۔ کیا ہم اتنے مغرور ہیں کہ یہ تصور کریں گے کہ انسان ہی سے تفریح کا خیال دنیا میں آیا؟
"کیا ہر وقت اچھا رہنا اکتا دینے والا نہیں ہو گا؟" اس سے تو کیا یہ لگتا ہے کہ گناہ میں تفریح اور جوش ہے اور راستبازی میں اکتاہٹ ہے، یہ بات شیطان کے سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے۔ گناہ کاملیت نہیں لاتا، یہ ہمیں اپنے آپ سے چھین لیتا ہے۔ جب خوبصورتی ہوتی ہے تب ہم خُدا کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ واقعی ہی سحر کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ تب بوریت یا اکتاہٹ ناممکن ہو جاتی ہے۔
خُدا اپنی تخلیق کی حکمرانی ہمارے حوالے کرتا ہے، اور ہم اُس کے ساتھ اُس کی نئی تخلیق پر بادشاہت کریں گے۔ ہمارے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہوگا ، جانے کی جگہیں ہوں گیں، لوگ دیکھیں گے۔ جنت کمال سفر کی ضمانت ہوگی کیونکہ وہاں موجود یسوع ایک کمال ہستی ہے جس کے وسیلے سے ہی سب کام ہوتے ہیں اور وہ بھی جو جنت میں ہونگے۔
کیا ہم جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے؟
کھانے، اور خوراک اور غذا کی وضاحت کرنے والے الفاظ کلام میں ہزار سے زیادہ بار ظاہر ہوۓ ہیں، انگریزی ترجمہ "فیسٹ" یعنی فسح کا لفظ کلام میں 187 بار آیا ہے۔ فسح میں جشن اور تفریح شامل ہوتے ہیں۔ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے. فسح کے وقت زبردست گفتگو ہوتی ہے ، اپنی زندگی کے بارے ایک دوسرے کو بتایا جاتا ہے، تعلق قائم ہوتے اور ہنسی مذاق ہوتا ہے۔ پچھلے زمانے میں جوعیدیں، فسح، روحانی اجتماع ہوتے تھے وہ خُدا، اُس کی عظمت اور اُس کی مخلصی کی طرف توجہ دلواتے تھے۔
جو لوگ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں وہ ایک ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، اور جَیسے میرے باپ نے میرے لِئے ایک بادشاہی مُقرّر کی ہے مَیں بھی تُمہارے لِئے مُقرّر کرتا ہوں تاکہ میری بادشاہی میں میری میز پر کھاؤ پِیو۔ (لوقا باب 22، آیات 29 اور30)
اس نے وعدہ کیا " اور مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بُہتیرے پُورب اور پچّھم سے آ کر ابرہامؔ اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضِیافت میں شرِیک ہوں گے۔" ( متی باب 8، آیت 11)
یسعیاہ باب 25 ، آیت 6 کے مطابق بہترین کھانے اور مشروبات ہمارے لیے خدا خود تیار کرے گا۔
یسوع جانتا تھا کہ اُس کے الفاظ اُن سب کے لیے پرکشش ہوں گے جو اُن کو سنتے ہیں۔ ایسی باتوں کا اندازہ لگانا معمولی یا غیر روحانی کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی میز پر کھانے کے منتظر رہیں؟
میں نے اپنی کتاب ہیون میں کرسٹوپلاٹونزم کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ اس کی عکاسی ہمارے گرجہ گھر کے ایک مسیحی آدمی سے ہوتی ہے جب میں جی اٹھنے کے بعد کی زندگی کے موضوع پر کلام سنا رہا تھا، "جسم رکھنے اور کھانا کھانے اور زمینی جگہ پر رہنے کا یہ خیال یہ صرف غیر روحانی لگتا ہے۔" اگر ہم یقین رکھتے ہیں کہ جسم اور زمین اور مادی چیزیں غیر روحانی ہیں، تو ہم قیامت یا نئی زمین کی طبعی خصوصیات کے بارے میں بائبل کے مکاشفہ کو قبول نہیں کر رہے ۔ لیکن یہ خیال کلام کے مطابق نہیں ہے کہ مادی چیزیں فطری طور پر غیر روحانی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ سی ایس لیوس نے خدا کے بارے میں کہا، "خدا مادے کو پسند کرتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس تخلیق کیا"[1]
جنت میں رشتے کیسے ہوں گے؟
کلام مقدس ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب ایک ہی شخص (یسوع) کے ساتھ، ایک ہی جگہ (جنت) میں، خدا کے لوگوں (چرچ) کے ساتھ رہیں گے۔ پولس 1 تھِسّلُنیکیوں باب 4 ، آیت 18 میں ہمیں ہمیشہ کے لیے خُداوند کے ساتھ رہنے کے حوالے سے کہتا ہے کہ ’’پس تُم اِن باتوں سے ایک دُوسرے کو تسلّی دِیا کرو۔‘‘ تو واضح طور پر ہم یسوع میں اپنے پیاروں کے ساتھ ابدیت گزاریں گے۔
مسیح نے کہا کہ جنت میں انسانی شادی نہیں ہوگی (متی باب 22 آیت 30)۔ پھر بھی جنت میں ایک شادی ہوگی، ایک شادی، مسیح اور اس کی دلہن کے درمیان- اور اس کے تمام لوگ اس کا حصہ ہوں گے (افسیوں باب 5 آیات 31 اور 32)۔ وہاں میری بیوی نینسی اور میں ایک دوسرے سے شادی نہیں کریں گے لیکن کلیسیا کے طور پر یسوع کے ساتھ اسی شادی کا حصہ ہوں گے۔
میرے پاس یہ یقین کرنے کی ہر وجہ ہے کہ جنت میں، میں اپنی بیوی اور بچوں اور پوتے پوتیوں کے قریب پہلے سے زیادہ ہوں گا۔ یہ ہمارے تعلقات کا خاتمہ نہیں ہوگا، لیکن ہمارے تعلقات کو وہاں ایک نیا درجہ مل جائیگا۔ ہمارے سکون کا ذریعہ نہ صرف یہ ہے کہ ہم جنت میں خُداوند کے ساتھ ہوں گے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے۔
کیا ہم جنت میں کوئ گناہ کریں گے؟
مسیح نئی زمین کے بارے میں وعدہ کرتا ہے، ’’ اِس کے بعد نہ مَوت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہ و نالہ نہ درد۔ پہلی چِیزیں جاتی رہیِں۔‘‘ (مکاشفہ باب 21، آیت 4)۔ چونکہ ’’گناہ کی مزدوری موت ہے‘‘ (رومیوں باب 6 ،آیت 23)، مزید موت نہ ہونے کے وعدے کا مطلب یہ کہ مزید گناہ نہیں ہوگا۔ جو کبھی نہیں مریں گے وہ کبھی گناہ نہیں کر سکتے، کیونکہ گنہگار ہمیشہ مرتے ہیں۔ گناہ ماتم، سوگ اور درد کا باعث بنتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ کبھی نہیں آئینگے، تو گناہ نہیں ہو سکتا۔
ہمیں جنت میں حقیقی آزادی ملے گی، ایک راستبازی کی آزادی جس میں کبھی گناہ نہیں ہوتا۔ چونکہ آدم اور حوا نے ایک کامل جگہ پر رہنے کے باوجود گناہ کیا، جیسا کہ شیطان نے بھی کیا تو بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہم کسی دن جنت میں گناہ کربیٹھیں گے۔ بائبل کہتی ہے کہ خدا گناہ نہیں کر سکتا۔ یہ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ ایک بار جب ہم اس کے ساتھ ہوں گے تو گناہ کرنا ہماری فطرت کے بھی خلاف ہوگا۔ ہم مزید گناہ نہیں کرنا چاہیں گے۔
یسوع نے کہا "اِبنِ آدمؔ اپنے فرِشتوں کو بھیجے گا اور وہ سب ٹھوکر کِھلانے والی چِیزوں اور بدکاروں کو اُس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے۔ اور اُن کو آگ کی بھٹّی میں ڈال دیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا۔ اُس وقت راست باز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانِند چمکیں گے۔" (متی باب 13 ، آیات 41 اور 43)
کیا ختم کیا جائے گا؟ ہر وہ چیز جو گناہ کا سبب بنتی ہے اور وہ سب جو برائی کرتے ہیں۔
گناہ ہمیں بالکل بھی اپنی طرف راغب نہیں کرپاۓ گا۔ لفظی طور پر کہا جاۓ تو یہ ناقابل تصور ہوگا۔ اس زندگی میں برائی اور مصائب کی یاد ، گناہ کی ڈر اور خالی پن کی ابدی یاد دہانی کے طور پر کام کرے گی۔
گناہ کیا تھا؟ ہم وہاں تھے، ہم نے گناہ کیا؛ اور ہم نے دیکھا کہ یہ کتنا بدصورت اور تباہ کن تھا!
پال ہیلم لکھتے ہیں، ''اس وقت جنت کی آزادی ، گناہ سے آزادی ہوگی؛ یہ نہیں کہ ایماندار صرف گناہ سے پاک ہوگا، بلکہ یہ کہ وہ اس قدر مضبوط ہوچکا ہوگا اور تشکیل پاچکا ہوگا کہ وہ گناہ نہیں کرسکتا۔ وہ گناہ نہیں کرنا چاہتا، وہ بالکل گناہ نہیں کرنا چاہتا۔"
کسی کو انجیل کی خوشخبری سناتے ہوۓ آپ جنت کے عقیدے کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
جب ہم جنت کو بائبل کی وضاحت کی طرح پیش کرتے ہیں تو آسمان ایک لاجواب انجیلی بشارت کا موضوع بن جاتا ہے۔ شیطان جنت کے بارے میں ہماری غلط فہمیوں میں دلچسپی لیتا ہے۔ جب وہ جنت کو ایک مدھم، کھردری، تھکا دینے والی اور اکتاہٹ والی جگہ کے طور پر پیش کرتا ہے جہاں کوئی نہیں جانا چاہے گا، تو پھر انجیلی بشارت کا تمام تر مقصد ختم ہو جاتا ہے۔
ہم کیوں چاہیں گے کہ ہمارے دوست ہمیشہ کے لیے ابدی پست حالی کی جگہ میں رہیں؟ اور وہ وہاں کیوں جانا چاہیں گے؟ کوئی بھی مرنے کے بعد بدروح نہیں بننا چاہتا، لوگ جلد ہی ایک بے ترتیب زندگی نہیں چاہیں گے۔
دوسری طرف، جب مسیحی سمجھتے ہیں کہ جنت نجات یافتہ دنیا میں ایک دلچسپ طبعی جگہ ہے جس میں گناہ اور موت کے بغیر نجات یافتہ رشتوں کے ساتھ نجات یافتہ لوگ ہیں، جہاں موسیقی، فن، سائنس، کھیل، ادب اور ثقافت موجود ہے، تو یہ حوصلہ افزائ اور مقصد کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوگا۔ یہ بات کہ "وہ سب خوشی سے زندگی بسر کرتے رہے" محض ایک پریوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے خُدا کا خون سے خریدا ہوا وعدہ ہے جو انجیل کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔
نئی زمین وہ ہے جہاں مزید درد اور غم نہیں ہوگا اور خدا ہر آنکھ سے آنسو پونچھ دے گا۔ (مکاشفہ باب 21،آیت 4)
یہ غیرایمانداروں کو بتانے والا کامل وعدہ ہے۔ ہمیں معذرت کے بغیر انہیں بتانا چاہیے کہ وہ جس خوشی کی تلاش میں ہیں، اس خُدا سے تعلق کے ساتھ جس سے ہر خوشی بہتی ہے، صرف یسوع کے وسیلے ملتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انجیل کو ’’بڑی خوشی کی خوشخبری‘‘ بناتی ہے!
Looking Forward to a Heaven We Can Imagine
What difference is Heaven supposed to make in our lives now? Why do you think many Christians don't look forward to Heaven anymore? What are some of the biggest misconceptions about Heaven?
Christians faced with death often feel they’re leaving the party before it’s over, going home early. They’re disappointed, thinking of all the people and things they’ll miss when they leave.
But for God’s children the real party awaits—think of the Father making merry and celebrating with a feast for the prodigal son who’s come home (Luke 15). The celebration is already underway at our true home, where we’ve not yet lived—and that’s precisely where death will take us. As others will welcome us to Heaven’s party, so we’ll one day welcome those who arrive later.
God commands us in his Word to set our minds in Heaven where Christ is (Colossians 3:1). We focus on an actual place where the eternally incarnate, resurrected Christ lives. We’re commanded to be “looking forward to the new Heavens and New Earth where righteousness dwells” (2 Peter 3:13)—the resurrected cosmos, our future and eternal home.
Paul says, “I consider that the sufferings of this present time are not worth comparing with the glory that is to be revealed to us” (Romans 8:18). If we don’t understand this future glory of Heaven that awaits us, we won’t see our present sufferings shrink in comparison to its greatness.
What God made us to desire is exactly what he promises to those who follow Jesus Christ: a resurrected life in a resurrected body, with the resurrected Christ on a resurrected earth. Our desires correspond precisely to God’s plans. It’s not that we want something, so we engage in wishful thinking. It’s the opposite—we want real human lives as real embodied people because God has wired us that way, and has always planned for it.
Will Heaven ever be boring?
We will be more likely to think of Heaven as boring if we think of it as a disembodied state. But the ultimate Heaven where we’ll live forever is defined by resurrection, and resurrection is by definition embodied. Jesus spoke of the coming “renewal of all things” (Matthew 19:27-28). Peter preached of “the time for restoring all the things about which God spoke by the mouth of his holy prophets” (Acts 3:21). For resurrected people in a renewed universe, boredom will be unthinkable.
Our belief that Heaven will be boring betrays a heresy—that God himself is boring. There’s no greater nonsense. Our desire for pleasure and the experience of joy come directly from God’s hand. He made our taste buds, adrenaline, and the nerve endings that convey pleasure to our brains. Likewise, our imaginations and capacity for joy were made by the God whom some imagine is boring. Are we so arrogant as to imagine that human beings came up with the idea of having fun?
“Won’t it be boring to be good all the time?” This assumes sin is exciting and righteousness is boring, which is one of the Devil’s most strategic lies. Sin doesn’t bring fulfillment, it robs us of it. When there’s beauty, when we see God as he truly is—an endless reservoir of fascination—boredom becomes impossible.
God delegates rule of his creation to us, and we’ll reign with him over his new creation. We’ll have things to do, places to go, people to see. Heaven is guaranteed to be a thrilling adventure because Jesus is a thrilling person—the source of all great adventures, including those awaiting us in the new universe.
Will we eat and drink in Heaven?
Words describing eating, meals, and food appear more than a thousand times in Scripture, with the English translation “feast” occurring 187 times. Feasting involves celebration and fun; it’s profoundly relational. Great conversation, storytelling, relationship-building, and laughter happen during mealtimes. Feasts, including Passover, were spiritual gatherings that drew attention to God, his greatness, and his redemption.
People who love each other love eating together. Jesus said to his disciples, “I confer on you a kingdom, just as my Father conferred one on me, so that you may eat and drink at my table in my kingdom” (Luke 22:29-30). He promised, “Many will come from the east and the west, and will take their places at the feast with Abraham, Isaac, and Jacob in the kingdom of Heaven” (Matthew 8:11). The finest foods and drinks, according to Isaiah 25:6, will be prepared for us by God himself.
Jesus knew his words would be attractive to all who heard them. How can it be trivial or unspiritual to anticipate such things? Don’t you think he wants us to look forward to eating at his table?
In my book Heaven I coined the term Christoplatonism. It’s reflected by a Christian man in our church, who told me after I preached on the resurrected life, “This idea of having bodies and eating food and being in an earthly place . . . it just sounds so unspiritual.” If we believe that bodies and the earth and material things are unspiritual, then we’ll inevitably reject biblical revelation about our bodily resurrection or the physical characteristics of the New Earth. But the idea that physicality is inherently unspiritual is not biblical. As C. S. Lewis said of God, “He likes matter. He invented it.”
What will relationships in Heaven be like?
Scripture tells us we will all be living with the same person (Jesus), in the same place (Heaven), with God’s people (the church). Paul says in 1 Thessalonians 4:18 that we are to “comfort one another with these words,” in reference to our being together with the Lord forever. So clearly we will be spending eternity with our loved ones in Jesus.
Christ said that there won’t be human marriage in Heaven (Matthew 22:30).Yet there will be marriage in Heaven, one marriage, between Christ and his bride—and his people will all be part of it (Ephesians 5:31-32). Nanci and I won’t be married to each other but will be part of the same marriage to Jesus.
I have every reason to believe that in Heaven, I will be closer to my wife and kids and grandkids than ever. It won’t be the end of our relationships, but they’ll be taken to a new level. Our source of comfort isn’t only that we’ll be with the Lord in Heaven but also that we’ll be with each other.
Will we be capable of sinning in Heaven?
Christ promises on the New Earth, “There will be no more death or mourning or crying or pain, for the old order of things has passed away” (Revelation 21:4). Since “the wages of sin is death” (Romans 6:23), the promise of no more death is a promise of no more sin. Those who will never die can never sin, since sinners always die. Sin causes mourning, crying, and pain. If those will never occur again, then sin can’t.
We’ll have true freedom in Heaven, a righteous freedom that never sins. Since Adam and Eve sinned, despite living in a perfect place, as did Satan, many people wonder if we’ll sin someday in Heaven. The Bible says that God cannot sin. It would be against his nature. Once we’re with him, it’ll be against our nature too. We won’t want to sin any more than Jesus does.
Jesus said, “The Son of Man will send out his angels, and they will weed out of his kingdom everything that causes sin and all who do evil. . . . Then the righteous will shine like the sun in the kingdom of their Father” (Matthew 13:41-43). What will be weeded out? Everything that causes sin and all who do evil.
Sin will have absolutely no appeal to us. It will be literally unthinkable. The memory of evil and suffering in this life will serve as an eternal reminder of sin’s horrors and emptiness. Sin? Been there, done that; seen how ugly and disastrous it was!
Paul Helm writes, “The freedom of Heaven, then, is the freedom from sin; not that the believer just happens to be free from sin, but that he is so constituted or reconstituted that he cannot sin. He doesn’t want to sin, and he does not want to want to sin.”
How might you use the doctrine of Heaven when sharing the gospel with someone?
Heaven is a terrific evangelistic subject when we portray it as the Bible does. Satan has vested interests in our misconceptions regarding Heaven. When he depicts it as a dull, drab, tedious, boring place where nobody would want to go, all motivation for evangelism is removed.
Why would we want our friends to spend eternity in an eternally dull place? And why would they want to go there? Nobody wants to be a ghost when he dies—people will no sooner develop a taste for a disembodied life than for broken glass.
On the other hand, when Christians understand Heaven is an exciting physical place on a redeemed world with redeemed people in redeemed relationships without sin and death, where there is music, art, science, sports, literature, and culture, it’s a great source of encouragement and motivation. “They all lived happily ever after” is not merely a fairy tale. It’s the blood-bought promise of God for all who trust in the gospel.
The New Earth is where there’ll be no more pain and sorrow and God will wipe away the tears from every eye (Revelation 21:4). That’s the perfect promise to share with unbelievers. We should unapologetically tell them that the happiness they long for, the reconciliation to the God from whom happiness flows, is found in Jesus alone—this is what makes the gospel “good news of great joy”!
Photo by Mark Harpur on Unsplash