مصنف: رینڈی ایلکورن ( Author: Randy Alcorn )
مترجم: گوہر الماس ( Translator: Gohar Almas )
میں ایک غیر ایماندار گھر میں پلا بڑھا اور میں پہلا تھا جس نے مسیح کے بارے میں نوعمری میں سنا۔ شروع میں تو بائبل کی کہانیاں مجھے یونانی افسانے اور مزاح نگار جو مجھے پسند تھے ان سے زیادہ سچی نہیں لگتی تھیں۔ پھر میں نے انجیل پڑھی اور ایمان لے آیا کہ یسوع حقیقی ہے اور سارے سپر ہیروز یسوع کے مقابلے غیر حقیقی ہیں۔ جب یسوع نے مجھے نجات دی میں نے ایک گہری خوشی کا تجربہ کیا جس کے بارے میں میں پہلے کبھی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی پہلے کبھی اس کا تجربہ کیا تھا۔
میری دلی خوشی نئے سرے سے پیدا ہونے، معاف کیے جانے، اور خُدا کی روح کے وسیلے سے زندہ رہنے کا نتیجہ تھی۔
'مُبارک ہے وہ جِس کی خطا بخشی گئی اور جِس کا گُناہ ڈھانکا گیا۔ ' زبور 32، آیت 1
یہ "آپ کی نجات کی خوشی" (جس کا ذکر زبور 51، آیت 12 میں ہے) اس خالی پن سے بالکل الٹ ہے جو میں نے "خوشی کی خوشخبری" (جس کا ذکریسیعاہ باب 52، آیت 7 میں ہے) سننے سے پہلے محسوس کی تھی، جسے "بڑی شادمانی کی خوشخبری" بھی کہا جاتا ہے ( جس کا ذکرلوقا 2:10 میں ہے )۔
میں نے مسیح کی پیروی کرنے کے لیے جن چیزوں کو ترک کیا میں نے ان کو قربانی نہ سمجھا۔ خاص طور پر اس لیے کیونکہ ان سے مجھے خوشی نہیں ملتی تھی۔ یسوع اب میرے لیے سب کچھ سمجھتا تھا۔ میں خوش رہنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا؛ میں واقعی خوش تھا.
غمگین، پھر بھی ہمیشہ خوش رہنے والا
مسیح کے پاس آنے والا ہر شخص اپنی خوشی میں اچانک اضافے کا تجربہ نہیں کرتا۔ بہت سے خوشی میں اچانک اضافے کا تجربہ کرتے بھی ہیں، لیکن ان میں سے بہت سے لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کی خوشی آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
جب تک کہ مسیح اس دنیا کو بحال نہیں کرتا تب تک مسیح میں ہماری خوشی غم کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ کسی نہ کسی طرح دائمی خوشی دکھ میں بھی ممکن ہے۔
پھر بھی مسیحی "غم" میں ہمیشہ خوش رہتے ہیں"
(2 کرنتھیوں باب 6، آیت 10)
چند سال پہلے میرے ایک عزیز دوست نے خود کشی کرلی اور میں یہ سن کر اتنا رویا جتنا میں پچھلے کئ سالوں میں نہیں رویا۔ ایک لمحے میں، میری بیوی نینسی اور میں اس کی بیوہ کے ساتھ مل کر رو رہے تھے۔ پھر اچانک گٹار اور ڈرم بجنے کی آواز آئ اور کسی نے "ٹوئسٹ اینڈ شاٹ" گانا گایا۔ ہم تینوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور ہم اس عجیب بات پر ہنسنے لگے۔
وہ لمحہ ایک تحفے کی طرح تھا، ہنسی ہمارے بوجھل دلوں کو تسلی دے رہی تھی۔ اگلے تین دنوں میں اس طرح کے مزید لمحات آتے رہے جن سے ہم اس کی موت کی حقیقت کوسمجھ پاۓ ان میں قبر کے آس پاس کی خوفناک جگہ کا تجربہ اور امید سے بھری میموریل سروس میں گزرا وقت شامل تھا۔ موت کا بھیانک چہرہ ہم پرغالب نہیں آیا کیونکہ سارا خاندان ایک قادرمطلق، محبت کرنے والے اور خوش خُدا کی پرستش کرتا تھا جس نے دل دہلا دینے والے غم کے بیچ میں ہی ہمیں چھوٹی اور بڑی دونوں خوشیاں دیں۔ یسوع نے کہ " مُبارک ہو تُم جو اَب روتے ہو کیونکہ ہنسو گے۔ " لوقا باب 6، آیت 21
فردوس میں ملنے والی جس خوشی کا وعدہ ہم سے کیا گیا تھا وہ ہمیں کبھی کبھی حال میں بھی مل جاتی ہے لیکن ہم کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔
مثبت سوچ اور خالص خوشی
مسیح میں روزانہ خوشی کا تجربہ کرنا خواہش مندانہ سوچ نہیں ہے۔ یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے: خدا نے صلیب اور نئ زندگی کے ذریعے ہماری ابدی خوشی کو محفوظ کیا۔ وہ ہمارے اندر رہتا ہے، اور وہ ہماری شفاعت کرتا ہے۔ کوئی بھی چیز ہمیں اس کی محبت سے الگ نہیں کرسکتی۔
خدا کہتا ہے "خُوشی اور شادمانی کرکیونکہ خُداوند نے بڑے بڑے کام کِئے ہیں۔" یوایل باب 2، آیت 21
"مثبت سوچ" کہتی ہے کہ ہم منفی سوچ کو نظر انداز کر کے خوش رہ سکتے ہیں (جیسے کہ گناہ، مصیبت اور جہنم)۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ میں اس خیالی انجیل کی خوشی پر یقین نہیں کرتا جس میں خدا صرف صحت، دولت اور کامیابی کے ذریعے ہی خوشی کا وعدہ کرتا ہے۔
جب خُدا ہمیں صحت، رزق اور خوشنما برکتیں عطا کرتا ہے تو ہمیں اسکا شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب برکتیں ملتی ہیں تو خوش ہونا ایک چیز ہے لیکن دوسری چیز یہ ہے کہ جب برکتیں نہیں ملتیں تو یہ مانا جاۓ کہ خدا نے ہمیں ناپسند کیا ہے۔
ہمارے نزدیک خدا کے بندہ کو زیورات سے بھری ہوئ چیز کی طرح کی خوشحالی کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ایسا خادم بننا چاہیے جس کا مکمل دھیان صرف یسوع پر ہو ۔
مشنری ایمی کارمائیکل (1867–1951) جیسی خادمہ ہونا چاہیے جو ان گنت ان بچوں تک خوشخبری لے کر آئیں جنہیں انہوں نے ہندوستان کے مندر میں جسم فروشی سے بچایا۔ انہوں نے بہت زیادہ جسمانی تکالیف کا سامنا کیا اور پچپن سالوں میں انہوں نے چھٹی نہ کی۔ پھر بھی انہوں نے لکھا، "[زندگی] کے بارے میں کوئی خوفناک اور مشکوک بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب مسلسل خوش رہنا ہے۔ . . . ہمیں خُداوند نے اس میں ایک کامل خوشی کے لیے بلایا ہے اور اس کی خوشی ہمارا زور ہے‘‘ (فرینک ہوٹن، ایمی کارمائیکل)۔
جیسے خود غرض اور ظاہری محبت اور امن ہوتا ہے اسی طرح خود غرض اور ظاہری خوشی بھی ہوتی ہے۔
حالات سے بڑی خوشی
خوش رہنے کی جستجو عدن کی طرح قدیم بات ہے۔ لوگوں کے اندر خوشیوں کی پیاس باقی رہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاص طور پر نوجوانوں میں ذہنی دباؤ اوربے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مطالعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے بعد زیادہ لوگ اچھے کی بجاۓ زیادہ برا محسوس کرتے ہیں۔ اچھا وقت گزارتے ہوۓ دوسروں لوگوں کی تصوریں دیکھ کر وہ احساس محرومی اور احساس کمتری محسوس کرتے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ "لوگوں کی زندگی کے حالات اور وہ کتنے خوش ہیں ان دونوں کے درمیان بہت کم تعلق ہے" (خوشی ایک سنگین مسئلہ ہے، 115)۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ "لوگوں کی زندگی کے حالات اور وہ کتنے خوش ہیں ان دونوں کے درمیان بہت کم تعلق ہے" (خوشی ایک سنگین مسئلہ ہے، 115)۔ پھر بھی جب لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ "وہ خوش کیوں نہیں ہیں؟" تو وہ اپنے حالات پر دھیان کرتے ہیں. ہماری گمراہ کن دنیا میں پریشانیاں مستقل رہتی ہیں۔ خوش مزاج لوگ اپنے مشکل حالات سے ہٹ کر کسی ایسی ہستی کی طرف دھیان کرتے ہیں جس کے فضل سے اندھیروں میں روشنی آتی ہے اور انتہائی غیر متوقع لمحات میں ہمارے چہروں پر مسکراہٹ آتی ہے۔ بہت سے مسیحی اداسی، غصہ، پریشانی یا تنہائی میں رہتے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ ان کے حالات کے وجہ سے وہ دکھی ہی رہیں گے۔ وہ ٹریفک جام ہونے، وائی فائی کے نہ چلنے، یا گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر خوشی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ کلام کے تقریباً ہر اس صفحے جس پر خوشی کی وجوہات موجود ہوتی ہیں ان پر غور نہیں کرتے ہیں۔
ہم فردوس میں خوشی کا سانس لیں گے
اے ڈبلیو ٹوزر نے مسیح کی مصلوبیت کے بارے لکھی ایک کتاب میں لکھا "خدا کے لوگوں کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ خوش لوگ رہنا چاہئے۔ لوگوں کو مسلسل ہمارے پاس آنا چاہیے اور ہماری خوشی اور مسرت کا ذریعہ پوچھنا چاہیے"۔ ایمی کارمائیکل کی "مستحکم خوشی" زندگی کی مشکلات کے باوجود مکن ہے۔ کمال اور دیرپا خوشی آج ہمارے پاس ہے کیونکہ مسیح یہاں ہے۔ یہ خوشی کل بھی ہمارے پاس ہوگی کیونکہ مسیح یہاں ہوگا اور یہ خوشی ہمیشہ کے لیے ہماری ہوگی کیونکہ مسیح ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔
وہ دن ابھی نہیں آیا جب خُدا ’’ان کی آنکھوں سے ہر آنسو پونچھ دے گا‘‘ (مکاشفہ باب 21، آیت 4)۔ وہ کرے گا. مسیح کے خون سے خریدا ہوا وعدہ ہماری موجودہ خوشی کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یسوع نے یہ چونکا دینے والی بات کی ”مبارک ہیں وہ جو ماتم کرتے ہیں۔ کیونکہ خدا انہیں تسلی دے گا” (متی باب 5، آیت 4)۔
موجودہ خوشی مستقبل کے آرام کے بارے وعدے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ خدا کے فرزندوں کا ابدی نقطہ نظر انہیں ایک حقیقی اور حتمی خوشی سے آگاہ کرتا ہے وہ خوشی جس کی وہ اب توقع کرسکتے ہیں۔ ( دیکھیں زبور 16، آیت 11 - زبور 21 آیت 6 - زبور 36 ، 7 تا 10 - زبور 37 ، آیت 16 - زبور 43 ، آیت 4 - زبور 73 ، آیت 28 - یوحنا باب 10 ، آیت 10 )
حال میں ابدیت کی خوشیاں کیوں نہیں ملتیں؟ کیا ہمیں آنے والی گریجویشن، شادی، ملاقات، دوبارہ ملاپ، یا چھٹیوں کی توقع میں موجودہ خوشی نہیں ملتی؟ تو کیا ہمیں اُس دن کی توقع کرنے میں اور بھی زیادہ خوشی نہیں ملنی چاہیے جب خُدا موت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا (یسعیاہ باب 25، آیت 8) اور ہمیشہ کے لیے لعنت کو پلٹ دے گا (مکاشفہ باب 22 ، آیت 3) اور ہم اپنے نجات دہندہ اور ابدی خاندان کے ساتھ جڑ جا ئینگے؟
خدا کے فضل کو مانگیں، آئیے آج اپنے خداوند کی خوشی میں داخل ہوں اس کے وعدے پر غور کرتے ہوئے اور اس بات کو دوسروں کو بتاتے ہوئے کہ ہم اس کے چہرے کو ایک نئی اور دلکش دنیا میں دیکھیں گے جہاں خوشی وہ ہوا ہوگی جس میں ہم سانس لینگے۔
Breathe in the Happiness of Heaven
I grew up in an unbelieving home, and first heard about Christ as a teenager. Initially, Bible stories seemed no more true than the Greek mythology and comics I loved. Then I read the Gospels, and believed that Jesus was real, and then superheroes became mere shadows of Him. When Jesus rescued me, I experienced a profound happiness I’d never known, and have never gotten over. My heartfelt gladness was the result of being born again, forgiven, and indwelt by God’s Spirit. “Happy are those whose transgression is forgiven, whose sin is covered” (Psalm 32:1, NRSV).
This “joy of your salvation” (Psalm 51:12) contrasted starkly with the emptiness I’d felt before hearing the “good news of happiness” (Isaiah 52:7), also called the “good news of great joy” (Luke 2:10).
I never considered what I gave up to follow Christ as sacrifices — mainly because they hadn’t brought me happiness. Jesus now meant everything to me. I wasn’t trying to be happy; I simply was happy.
Sorrowful, Yet Always Rejoicing
Not everyone who comes to Christ experiences such a dramatic increase in happiness. Plenty do, but even many of those see their happiness gradually fade over time.
Until Christ cures this world, our happiness in Christ will be punctuated by sorrow. Yet somehow an abiding joy is possible even in suffering. Christians are “sorrowful, yet always rejoicing” (2 Corinthians 6:10).
A few years ago a dear friend took his life and I wept more than I have in years. One moment, Nanci and I were huddled close and sobbing with his widow. Then inexplicably guitar and drums exploded while someone sang “Twist and Shout.” Shocked and wide-eyed, the three of us started laughing uncontrollably at the startling incongruity.
That moment was a gift, laughter lifting our heavy hearts. More such moments came over the next three days that included the dreaded graveside and hope-filled memorial service. Death’s grim face did not prevail, as the family worshiped a sovereign, loving, happy God who gave us joys both small and great in the midst of heartbreaking sorrow. Jesus said, “How happy are you who weep now, for you are going to laugh!” (Luke 6:21, Phillips). The laughter promised us in Heaven sometimes erupts in the present, a welcome foretaste of the unending happiness awaiting us.
Positive Thinking and Pure Joy
Experiencing daily happiness in Christ isn’t wishful thinking. It’s based on solid facts: God secured our eternal happiness through the cross and resurrection. He dwells within us, and He intercedes for us. Nothing separates us from His love. And He tells us “Be happy and full of joy, because the Lord has done a wonderful thing” (Joel 2:21, NCV).
“Positive thinking” says we can be happy by ignoring the negative (such as sin, suffering, and hell). I don’t believe that. Nor do I embrace the God-as-genie, name-it-and-claim-it prosperity gospel, which promises happiness through health, wealth, and success.
We should be grateful when God grants us health, provisions, and delightful surprises. But it’s one thing to be happy when such things occur, and another to believe God has failed us when they don’t.
Our models shouldn’t be jewelry-laden prosperity preachers, but Jesus-centered servants. Servants such as missionary Amy Carmichael (1867–1951), who brought the gospel to countless children she rescued from temple prostitution in India. She experienced much physical suffering and didn’t have a furlough in fifty-five years. Yet she wrote, “There is nothing dreary and doubtful about [life]. It is meant to be continually joyful. . . . We are called to a settled happiness in the Lord whose joy is our strength” (Frank Houghton, Amy Carmichael).
There’s selfish and superficial happiness, just like there’s selfish and superficial love and peace. But we still use those words, even though the world sells cheap imitations. We dare not belittle Christ-focused happiness just because there is self-centered happiness!
A Joy Bigger Than Circumstances
The quest to be happy is as ancient as Eden. People’s thirst for happiness remains. Our culture is characterized by increasing depression and anxiety, particularly among youth. Studies show more people feel bad than good after using social media; photos of others having good times leave observers feeling left out and inferior.
Research indicates there’s “little correlation between the circumstances of people’s lives and how happy they are” (Happiness Is a Serious Problem, 115). Yet when people are asked “Why aren’t you happy?” they focus on circumstances. In our fallen world, troubles are constant. Happy people look beyond their difficult circumstances to Someone whose grace brings light to the darkness and smiles to our faces in the most unlikely moments.
Many Christians live in sadness, anger, anxiety, or loneliness, thinking these feelings are inevitable given their circumstances. They lose joy over traffic jams, wifi issues, or rising gas prices. They miss the reasons for happiness expressed on nearly every page of Scripture.
We Will Breathe Happiness in Heaven
A.W. Tozer wrote, “The people of God ought to be the happiest people in all the wide world! People should be coming to us constantly and asking the source of our joy and delight” (Who Put Jesus on the Cross?).
Amy Carmichael’s “settled happiness” is possible despite life’s difficulties. Rich and durable, this happiness is ours today, because Christ is here; it’s ours tomorrow because Christ will be there; and it’s ours forever, because He’ll never leave us.
The day hasn’t yet come when God will “wipe away every tear from their eyes” (Revelation 21:4). But it will. Christ’s blood-bought promise has breathtaking implications for our present happiness. Jesus made this startling statement: “Happy are those who mourn; [for] God will comfort them!” (Matthew 5:4, GNT). Present happiness is derived from the promise of future comfort. The eternal perspective of God’s children informs them of a true and ultimate happiness they can anticipate now (see Psalm 16:11; 21:6; 36:7–10; 37:16; 43:4; 73:28; John 10:10).
Why not frontload eternity’s joys into the present? Don’t we find current happiness in anticipating an upcoming graduation, wedding, visit, reunion, or vacation? So shouldn’t we find even greater pleasure in anticipating the day when God will swallow up death forever (Isaiah 25:8), permanently reverse the curse (Revelation 22:3), and unite us with our Savior and eternal family?
Calling upon His grace, let’s enter into our Master’s happiness today by contemplating and sharing His promise that we’ll behold His face in a new and captivating world, where joy will be the air we breathe.
Photo by Kunal Goswami on Unsplash